کچھ ادارے تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں
اور جو کچھ خدمات ان کے لیے مقدر ہیں، انھیں انجام دے کر تاریخ
کے خاکستر میں دب جاتے ہیں، اور کچھ اللہ کی طرف سے تاریخ
ساز بن جاتے ہیں، جو صرف پھل نہیں دیتے؛ بلکہ ان درختوں کو جنم
دیتے ہیں، جن سے پھل پیدا ہوں، جو صرف پھول نہیں دیتے؛
بلکہ ایک پھلواری کو وجود میں لاتے ہیں، جو صرف روشنی
نہیں دیتے؛ بلکہ ایسے چراغ وجود میں لاتے ہیں، جن کی
لَو سے ہزارو ں چراغ جلائے جاتے ہیں، ایسے ہی بافیض
اداروں میں ایک دارالعلوم دیوبند ہے، یقینادارالعلوم
ایک سمندر ہے، جس سے علم کی نہریں پھوٹتی ہیں، وہ ایک
آفتابِ جہاں تاب ہے، جس سے ہزاروں ستاروں کو روشنی ملتی ہے اور وہ ایک
شجرِ طوبیٰ ہے؛ جس کی سایہ دار ٹہنیاں مشرق سے مغرب
تک سایہ فگن ہیں: ”اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا، کَلِمَةً
طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ، اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی
السَّمَآءِ۔(ابراہیم:۲۴)
دارلعلوم نے اپنے قیام سے لے کر آج
تک ہر عہد میں بڑے بڑے اہلِ علم کو جنم دیا ہے، بیسویں صدی
میں جو علماء، اصحابِ فکر اور اہلِ نظر اس دانش گاہ سے پیدا ہوئے، ان
میں ایک قابل ذکر شخصیت استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ریاست
علی ظفر# بجنوری کی تھی، اس حقیر کو ۱۳۹۶ھ
میں اس عظیم درسگاہ میں حاضری کا اور یہاں سے کسب ِ
فیض کا موقع ملا، اس وقت مولانا موصوف وسطیٰ کے استاذ تھے اور
غالباً ششم عربی تک کی کتابیں آپ سے متعلق تھیں، میرے
عم محترم حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی اور ان کے درمیان بڑے اچھے مراسم تھے، قاضی صاحب
ابتدائے سال ہی میں کسی مناسبت سے تشریف لائے اور مولانا
موصوف نے اپنے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق صاحب (ناظم کتب خانہ ) کے یہاں
ان کی پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا، مجھے بھی قاضی
صاحب کے ساتھ اس میں
شرکت کا موقع مل گیا تھا، اس وقت پہلی بار قریب سے مولانا کو دیکھنے
کا موقع ملا، مولانا کے سراپا اور مزاج و اخلاق کی تصویر اسی
وقت سے ذہن میں نقش ہے، کھِلا ہوا رنگ، درمیانہ قد و قامت، سیاہ
داڑھی، جس کے چند بال سفید تھے، کشادہ پیشانی، دوپلی
ٹوپی، کرتا اور شلوار، سر سے پاؤں تک سفید پوش، سنجیدہ و متین
لیکن خوش مزاج، زبان ایسی کہ جیسے الفاظ سنگ مر مر سے
تراشے گئے ہوں، بے تکلف اور مہربان، احباب اور شاگردوں کے ساتھ گفتگو میں
ظرافت کی آمیزش اور محبت آمیز طنز، حاضر جواب، بروقت اساتذہٴ
شعر و سخن کے کلام کا استعمال کچھ اس برجستگی سے کرتے کہ گویا یہ
شعر اسی موقع کے لیے کہا گیا ہو، مہمان نواز، طلبہ کے ہمدرد،
بزرگوں کے نیاز مند اور معاصرین کے قدر داں۔
-------------------------
ان کا نسب میزبانِ رسول حضرت ابوایوب
انصاریسے ملتا ہے، اور سلسلہٴ نسب میں
شیخ الاسلام عبداللہ انصاری ہروی (متوفی ۳۶۶ھ)
اورہندوستان کے معروف صاحبِ علم، استاذ الاساتذہ قطب الدین سہالوی (متوفی:۱۱۳ھ)
کے اسماء گرامی بھی ملتے ہیں؛ جس سے اس خاندان کے علمی
مقام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، اسی خاندان کی ایک نیک
سیرت شخصیت منشی فراست علی مرحوم اپنے آبائی مقام
موضع حبیب والا، ضلع بجنور سے علی گڑھ منتقل ہوگئے تھے، جومولانا کے
والد ماجد تھے اور پیشہ تدریس سے تعلق رکھتے تھے، یہیں ۹/مارچ
۱۹۴۰/ کو محلہ حکیم سرائے میں آپ پیدا
ہوئے، ۱۹۵۱/ میں مقامی پرائمری اسکول
سے چوتھی جماعت کی تکمیل کی، پھر ان کے پھوپا اور کتب
خانہ دارالعلوم دیوبند کے ناظم مولانا محمد سلطان الحق صاحب کی جوہر شناس شخصیت نے اپنے ساتھ لیا اور آپ دیوبند
لائے گئے، ابتداء سے انتہاء تک دارالعلوم ہی سے کسبِ فیض کیا، یہاں
تک کہ۱۹۵۸/ میں فراغت حاصل کی اور اول درجہ
سے کامیاب ہوئے۔
اس وقت شیخ الہند حضرت مولانا محمود
حسن دیوبندی کے تلمیذ رشید حضرت مولانا فخر الدین
احمد صاحب دارلعلوم دیوبند
کے شیخ الحدیث تھے، ان کا درس علم وتحقیق، موضوع کے احاطہ اور
زبان و بیان کی خوبصورتی کے لحاظ سے ایک بے مثال درس تھا،
شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کے بعد دارالعلوم کی مشیختِ
حدیث کو اس درجہ کا کوئی اور شخص نہیں ملا، ”وَلَعَلَّ
اللہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ أمْراً“ حضرت مولانا ریاست علی صاحب کچھ اس طرح ان کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے کہ جب تک وہ زندہ رہے، ہمیشہ
فیضیاب ہوتے رہے، ۱۳۹۱ھ میں دارالعلوم
دیوبند میں درجہٴ ابتدائی میں مدرس مقرر ہوئے اور
ترقی کرتے ہوئے ۱۴۰۳ھ میں درجہٴ علیاء
کے استاذ ہوگئے، پھر تادمِ وفات تدریس سے اپنا تعلق برقرار رکھا، اخیر
زمانہ میں سننِ ترمذی جیسی حدیث کی اہم کتاب
جس کو دارالعلوم دیوبند اور اس کے ہم مزاج اداروں میں خصوصی اہمیت
کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے اور لائق ترین استاذ سے اس کی تدریس
متعلق کی جاتی ہے، آپ سے متعلق رہی۔
-------------------------
جس وقت یہ حقیر دارالعلوم دیوبند
پہنچا تھا، اس وقت دورہ حدیث کی کتابیں بہت ہی سینئر
اساتذہ سے متعلق تھیں، جن میں سوائے حضرت مولانا محمد سالم قاسمی
صاحب دامت برکاتہم کے اب کوئی شخصیت باقی نہیں رہی،
اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں کو شایانِ شان اجر عطا فرمائے اور
ان کے درجات بلند کرے؛ لیکن اس وقت درجہٴ وسطیٰ کے دو تین
اساتذہ کا درس بہت مقبول تھا، طلبہ ان سے بہت خوش رہتے تھے اور ان کے ثناء خواں
تھے، ان میں ایک نام حضرت مولانا ریاست علی ظفر# بجنوری
صاحب کا بھی تھا۔
ان میں چوں کہ شفقت کا رنگ غالب
تھا، مزاج میں بے تکلفی اور شائستہ ظرافت تھی، ہٹو بچو کا مزاج
نہیں تھا؛ اس لیے طلبہ ان سے قریب رہتے تھے، وہ طلبہ بھی
جو اُن سے پڑھے ہوئے تھے، وہ بھی جن کے اسباق اُن سے متعلق نہیں تھے
اور وہ بھی جو اُن سے پڑھ کر فارغ ہوچکے تھے؛ اس لیے مولانا کے پاس
طلبہ کی کافی آمد ر وفت رہتی تھی، ان کا ادبی ذوق
بھی بہت اونچا تھا؛ اس لیے طلبہ ان سے اپنی تحریروں کی
اصلاح کے لیے بھی رُجوع ہوا کرتے تھے اور وہ بڑی فراخ دلی
کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے۔
ان کی صلاحیت ہمہ جہت تھی،
شاعر تو وہ تھے ہی، نثر کا ذوق بھی بڑا اونچا تھا، اسی نسبت سے ۱۴۰۲ھ
میں ”ماہ نامہ دارالعلوم“ کے مدیر مسئول مقرر ہوئے، نیز ان کے
علمی و تحقیقی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے ۱۴۰۸ھ
میں انھیں ”شیخ الہند اکیڈمی“ کا نگران مقرر کیا
گیا، عام طورپر جو لوگ علمی میدان کے شہسوار ہوتے ہیں، ان
میں انتظام و انصرام کا سلیقہ نہیں ہوتا؛ لیکن مولانا کو
اللہ نے اس صلاحیت سے بھی نوازا تھا، وہ اُصولوں پر قائم رہتے ہوئے
لوگوں کو خوش رکھنے کا فن جانتے تھے، اسی نسبت سے انھیں پہلے ”مجلسِ
تعلیمی“ کا نائب ناظم پھر ناظم مقرر کیا گیا، کئی
بار عارضی طورپر ”نائب مہتمم“ اور ”کارگذار مہتمم“ کی ذمہ داری
بھی متعلق کی گئی، پھر مستقل طورپر نائب مہتمم مقرر کرنے کا بھی
فیصلہ ہوا؛ لیکن آپ نے معذرت کردی؛ بلکہ عمر کے اخیر حصہ
میں تمام انتظامی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر تدریس اور ایضاح
البخاری کی ترتیب کے لیے یکسو ہوگئے۔
-------------------------
ان کا خط بھی بڑا پاکیزہ ہوا
کرتا تھا، ایسا لگتا تھا کہ الفاظ کے موتی کاغذ پر بکھیر دیئے
ہیں، میرے ایک استاذ حضرت مولانا فضل الرحمن قاسمی صاحب ان کے ہم درس تھے
اور دونوں میں دوستانہ تعلق تھا، وہ ان کا بڑا ذکرِ خیر کیا
کرتے تھے اور اپنے دو ساتھیوں کے حسنِ تحریر کا ذکر کرتے تھے، ایک:
مولانا موصوف کا، دوسرے: حضرت مولانا محمد حنیف ملی (مالیگاوں)
کا، اور کہتے تھے کہ مولانا حنیف ملی خوش رقم تھے اور مولانا ریاست
علی صاحب خوش رقم بھی تھے اور زود رقم بھی، شاید اسی
لیے وہ مولانا فخر الدین صاحب کے درس کے بہتے دریا کو لوح و
قرطاس پر لانے میں کامیاب ہوئے۔
تدریسی، تربیتی
اور انتظامی مصروفیات کی وجہ سے مولانا کو تصنیف و تالیف
کی طرف زیادہ توجہ دینے کا موقع نہیں ملا؛ حالاں کہ اگر
وہ اس جانب توجہ دیتے تو ان کا شمار ان کے دور کے بڑے مصنّفین میں
ہوتا؛ لیکن ان کی دو تحریری یادگاریں ہمارے
سامنے ہیں، ایک: ”شوریٰ کی شرعی حیثیت“،
جس میں انھوں نے شورائی نظام کی اہمیت اور اس کے اختیارات
پر بڑی فاضلانہ گفتگو کی ہے؛ اگرچہ ایک خاص پس منظر میں
استاذ گرامی حضرت مولانا معراج الحق صاحب کے ایماء پر انھوں نے یہ کتاب
تالیف کی ہے؛ لیکن نفسِ موضوع کے اعتبار سے بھی یہ
بڑی اہم کتاب ہے اوراُردو زبان میں شاید اس مسئلہ پر اتنی
تفصیل کے ساتھ قلم نہیں اُٹھایا گیاہے۔
دوسرا کام؛ بلکہ کارنامہ ”ایضاح
البخاری“کی ترتیب ہے، یہ کام میری نظر میں
اس لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کتاب نے مولانا فخر الدین
احمد صاحب کو علمی و
درسی دنیا میں زندہ رکھا ہے، امام شافعی سے منقول ہے کہ لیث
ابن سعد امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے؛ لیکن ان کے شاگردوں نے ان
کو ضائع کردیا؛ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ علمی شخصیتیں
اکثر اپنے تصنیفی و تالیفی کارناموں سے زندہ رہتی ہیں،
اور اگر کسی شخص کو تصنیف و تالیف سے اشتغال کا موقع نہیں
ملا، یا ان کا علمی سرمایہ محفوظ نہیں رہا تو اگر شاگردوں
نے ان کے افادات کو جمع کیا تو یہ ان کی زندگی کو باقی
رکھتا ہے، ورنہ آہستہ آہستہ ان شخصیت لوگوں کے ذہن سے محو ہوجاتی ہے،
اس کی سب سے بڑی مثال خود امام ابوحنیفہ ہیں کہ آپ کی براہ راست تصنیفات محفوظ نہیں
رہ سکیں اور جو چیزیں باقی ہیں اور آپ کی طرف
منسوب ہیں، اہل علم کے نزدیک ان کی نسبت مشکوک ہے؛ لیکن
آپ کے باکمال شاگردوں، خاص کر امام محمد کے ذریعہ آپ کا علمی وفقہی سرمایہ محفوظ
ہوگیا، جو آج اہلِ علم کی آنکھوں کا سرمہ بنا ہوا ہے اور اہل السنة
والجماعت کی غالب تعداد آپ ہی کے فقہی اجتہادات کی متبع
ہے۔
-------------------------
یہ صورت حال ہر دور میں پیش
آئی ہے، بزرگانِ دیوبند میں استاذ الاساتذہ علامہ محمد ابراہیم
بلیاوی ایک امتیازی شان کے استاذ تھے، میں نے
حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب سے ان کے بارے میں سنا کہ وہ ایسے عالم تھے کہ بڑے سے
بڑا عالم بھی اگر ان کے سامنے بیٹھتا تو اس پر اس کا جہل واضح ہوجاتا؛
لیکن علامہ بلیاوی کا کوئی قابلِ ذکر تالیفی سرمایہ محفوظ
نہیں رہ سکا اور نہ شاگردوں نے ان کے افادات مرتب کیے؛ اس لیے
موجودہ دور کے نوجوان علماء کے یہاں شاذ و نادر ہی ان کا ذکر ملتا ہے،
اگر مولانا ریاست علی ظفر بجنوری صاحب نے اپنے محبوب استاذ مولانا فخر الدین احمد صاحب کے درس بخاری
کو مرتب نہیں کیا ہوتا تو ان کے تمام تر علمی و درسی
کمالات کے باوجود آج ان کا حال علامہ بلیاوی سے مختلف نہیں ہوتا اور صرف تاریخ دارالعلوم میں
ان کا نام پڑھنے کو ملتا؛ اس لیے مولانا ریاست علی صاحب نے اپنے استاذ کے
افادات کو مرتب کرکے ان کی شخصیت کو زندہ جاوید بنادیا۔
میرا خیال ہے کہ گہرے مضامین
کو خوبصورت تعبیر میں بیان کرنے اور دقیق فنی مسائل
کو زبان و بیان کے محاسن کے ساتھ پیش کرنے کے اعتبار سے درسی
شروح کی دنیا میں ”ایضاح البخاری“ ایک منفرد
کتاب ہے، جس کا اپنا رنگ و آہنگ ہے؛ حالاں کہ گاہے گاہے طولِ کلام بھی ہے؛ لیکن
پڑھنے والوں کی طبیعت اُکتاتی نہیں ہے اور مضمون دو پہر کی
دھوپ کی طرح واضح ہوجاتا ہے، میں پہلے اس کتاب کی حسنِ تعبیر
کو دیکھ کر سمجھتا تھا کہ شاید مولانا فخر الدین صاحب کے مفہوم کو مولانا
ریاست علی صاحب نے اپنے الفاظ کا پیرہن دیا ہے؛کیوں کہ سنجیدہ
اور دقیق مضامین کو اتنی خوبصورت تعبیر میں برجستہ
پیش کرنا بظاہر ممکن نہیں ہوتا؛ لیکن میں نے خود مولانا ریاست
علی صاحب سے اس بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا
کہ حضرت کی تقریر ہوتی ہی ایسی تھی اور
اس میں الفاظ بھی ان ہی کے ہیں، پھر حضرت مولانا فخر الدین
صاحب کے بعض اور شاگردوں
نے بھی بتایا کہ مولانا کے درس کی زبان بڑی خوبصورت اور
مرتب ہوا کرتی تھی؛ لیکن بہر حال اتنے تفصیلی درس
کو اخذ کرنا اور ان کی نقل و ترتیب کا کام انجام دینا بھی
کوئی معمولی کام نہیں ہے، اس کے علاوہ حسب ِضرورت مراجع سے
رُجوع کرنے، عنوانات قائم کرنے، کہیں کوئی خلاء رہ گیا ہو تو
اسے پُر کرنے کا کام فاضل مرتب ہی کے ذریعہ ہوا ہے، پھر تقریر و
تحریر کی زبان میں فرق ہوتا ہے، تقریر کتنی ہی
عمدہ کیوں نہ ہو، جب اس کو تحریر کا پیکر دیا جاتا ہے تو
بہت کچھ حک و اضافہ کرنا پڑتا ہے اور یہ سب کام آپ ہی نے انجام دیا
ہے۔
میں نے خاصا عرصہ پہلے ذکر کیا
تھا کہ اگر یہ کام آپ کے ہاتھوں مکمل ہوجاتا تو بڑا اچھا ہوتا اور یہ
کتاب استاذ و شاگرد دونوں کی یادگار بن جاتی، مولانا نے بتلایا
کہ اب میں واقعی یکسو ہوکر اس کام کو مکمل کرنا چاہتا ہوں؛ لیکن
حضرت کی زیادہ تر بحث جلد اول میں کتاب الایمان، کتاب
العلم اور ابتدائی ابواب اور جلد دوم میں مغازی و تفسیر میں
ہوا کرتی تھی، چاہتا ہوں کہ پہلے اس کو مکمل کرلوں، ”ایضاح
البخاری“کی اب تک دس جلدیں منظرعام پر آگئی ہیں،
اللہ کرے کہ یہ کام مکمل ہوجائے۔
-------------------------
انھوں نے دارالعلوم میں طالب علمی
کے آغاز سے اپنی وفات تک ایک دو سال چھوڑکر دارالعلوم ہی کے
احاطہ میں پوری زندگی گذاری، وہ دینی جلسوں
اور علمی مجلسوں میں کبھی کبھی چلے جایا کرتے تھے؛
لیکن اس کا معمول بہت کم تھا، وہ ایک باکمال اور فرض شناس مدرس کی
شان کے مطابق اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دارالعلوم میں گذارتے
تھے، وہ نہ صرف مسلکِ دیوبند پر ثابت قدم تھے؛ بلکہ تعلیمی اور
تربیتی منہج میں بھی دیوبند کے موجودہ تعلیمی
منہج اور نصابِ تعلیم کو ہی مدارسِ اسلامیہ کے لیے سب سے
بہتر تصور کرتے تھے، چند سال پہلے دارالعلوم وقف دیوبند میں دینی
مدارس کے نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم پر ”اسلامک فقہ اکیڈمی
انڈیا“ نے ایک دو روزہ سیمینار رکھا تھا، اس میں دیوبند
ہی کے رہنے والے ایک نوجوان فاضل نے تیز و تند مقالہ پیش
کیا، جس میں تبدیلیوں کے مشورہ کے ساتھ ساتھ موجودہ نظام
پر تیکھی تنقید بھی کی گئی تھی، راقم
الحروف اگرچہ درسِ نظامی کے مروجہ نصاب و نظام میں جزوی تبدیلی
کا قائل ہے؛ لیکن اس مقالہ میں دیے گئے مشورے اور خاص کر ان
مشوروں کا لب و لہجہ ناگوارِ خاطر ہی ہوا، حضرت مولانا ریاست علی
صاحب نے اس موقع پر اپنے
خطاب میں اس پر رد کرنے کا فریضہ انجام دیا، فجزاہ اللّٰہ
خیر الجزاء۔
-------------------------
مولانا کی زندگی کا ایک
اہم پہلو شعر و سخن کا اعلیٰ ذوق ہے، یوں تو ہندوستان کے بڑے
بڑے علماء و مشائخ نے اس میدان میں طبع آزمائی کی ہے؛ لیکن
زیادہ تر ان کے کلام میں نصح و موعظت اور تصوف کے معارف کو سادہ طریقہ
پر پیش کیا گیا ہے، ایسے لوگ کم ہیں؛ جن کے یہاں
شعری لطافت، تخیل کی بلندپروازی، دل آویز تشبیہات،
اور دل کو چھولینے والی تعبیرات پائی جاتی ہوں،
مولانا ریاست علی صاحب کے اشعار میں یہ خوبیاں بدرجہٴ اتم پائی
جاتی ہیں، وہ ایک عام مضمون کو بھی خوبصورت تشبیہات
کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جیسے آج کل حکومتیں اورجماعتیں
اپنے کارنا موں کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں اور کچھ خوشامدی
لوگ ان کی تعریف میں زمین کے قلابے آسمان سے ملادیتے
ہیں، مولانا نے کس خوبصورتی کے ساتھ اس پر طنز کیا ہے :
شہادتِ
گل و بلبل بہت ضروری ہے
کوئی
ہزا ر پکا ر
ا کر ے : بہا
ر آ ئی
کسی بات کو بیان کرنے کے لیے
پروانوں کا ذکر تو خوب ہوتا ہے؛ لیکن اصل قربانی خود شمع کی ہے،
جو اپنے آپ کو جلاتی اور گُھلاتی ہے، اس بے چاری کا ذکر نہیں
ہوتا اور جو ظاہری کردار ہیں، ان کو شہرت دی جاتی ہے، آپ
نے اس پس منظر میں کہا ہے :
تا ب و تبِ پیہم کی
پتنگے کو خبر
کیا؟
خود
شمع کے جلووں نے بنایا ہے یہ کردار
بعض ایسے مضامین جن کو اُردو
شاعری کے اساتذہ شعراء نے اپنے اشعار میں باندھا ہے، مولانا نے اس کو
بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اشعار میں پیش کیا ہے، جیسے
مرزا اسد اللہ غالب کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے :
وہ
آئیں گھر میں ہمارے، خدا کی قدرت ہے
کبھی
ہم ان کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
مولانا نے مہمان کی توقیر اور
اس کی آمد پر خوشی و اظہار مسرت کے مضمون کو اس طرح باندھا ہے:
نادم
ہو ں و اقعی کرَمِ بے
حسا ب سے
خوش
آمدید ! آپ کہاں، میرا گھر کہاں؟
اس شعر میں ”کرَمِ بے حساب“ کے
الفاظ سے مہمان کا شکریہ، ”خوش آمدید“ سے اس کا استقبال کرنا اور ”آپ
کہاں میرا گھر کہاں“ سے مہمان کی توقیر نیز اپنی
طرف سے تواضع کا اظہار ہے، گویا ایک مہمان کی آمد پر جو باتیں
ہونی چاہئیں، وہ سب اس میں جمع ہوگئی ہیں۔
اُردو شاعری میں ”مومن“ کا جو
بلند مقام ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں، ان کا یہ شعر نزاکت ِخیال
کا اعلیٰ نمونہ ہے اور اسی لیے اُردو دنیا میں
اس کو جو قبولیت و پذیرائی حاصل ہوئی ہے، وہ کم اشعار کو
حاصل ہوئی ہے :
تم
میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب
کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اگرچہ سلاست و روانی میں اب
بھی مومن کے شعر کا جواب نہیں؛ لیکن اس خیال کو مولانا نے
بھی بڑی خوبصورتی سے شعر کا پیکر دیا ہے، فرماتے ہیں
:
تب
کھلا ! آپ ہیں شریکِ سفر
مرے
ہمراہ کوئی جب نہ ہوا
مولانا کے اشعار میں تغزل کا رنگ
نمایاں ہوتا ہے اور بات ایسے طورپر کہی جاتی ہے جو مضر
ابِ احساس کو چھیڑ دے۔
عام طورپر اُردو شاعری میں
کچھ تو وہ اساتذہ ہیں، جنھوں نے اپنا خاص اُسلوب قائم کیا ہے، کچھ وہ
ہیں جنھوں نے نمائندہ شعراء کی پیروی کرنے اور ان کا رنگ
اختیار کرنے کی کوشش کی ہے، اس سلسلہ میں غالب، میر
اور اقبال کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی اور بہتوں نے ان کی پیروی
کی کوشش کی؛ لیکن ایک شخص بیک وقت کئی شعراء
کے اُسلوب کو ساتھ لے کر چلے اور مختلف لب و لہجہ میں اپنے اشعار کہے، یہ
آسان نہیں ہوتا، مولانا مرحوم کو اللہ نے اس غیر معمولی صلاحیت
سے نوازا تھا، جیسے میر کے لب و لہجہ میں کہتے ہیں :
رُت
بدلے گی، پھول کھلیں گے، جام مجھے چھلکانے دو
جا م مجھے چھلکا نے د و، کو
نین
کو و جد
آجانے دو
تم بِن ر
ین ا ند
ھیر ی، دُ
و ر تلک سنا ٹا
ہے
ایک
میرا دل ہے پیاسا اور میرے پیمانے دو
ذرہ
ذرہ سینہ کھولے، تیری طرف کیوں لپکے ہے
ہم
بیچاروں کی بھی سن لو، ہم کو وہاں تک آنے دو
ان اشعار میں اس خوبی ومہارت
کے ساتھ میر کے لب و لہجہ اور ان کی زبان کو اختیار کیا گیا
ہے کہ اگر اُردو شاعری کے کسی رمزشناس کو شاعر کا نام معلوم نہ ہو تو
عجب نہیں کہ وہ اس کو میر ہی کے اشعار سمجھ لے۔
اسی طرح یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
:
کسے
نسبت ہے چشمِ معتبر سے
حذرائے
دل ! جہانِ کم نظر سے
منور
ہے حریمِ زندگانی
گدازِ
شام سے، آہِ سحر سے
اگر آپ کو معلوم نہ ہو کہ یہ مولانا
ریاست علی بجنوری صاحب کے اشعار ہیں تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ
اقبال کے اشعار نہیں ہیں، وہی شِکُوہِ الفاظ، وہی جوش و
خروش اور وہی لب و لہجہ میں وقار و تمکنت۔
مولانا کی شعری خدمات کا ایک
شاہکار دارالعلوم دیوبند کا ترانہ ہے، جس میں ایک طرح سے دارالعلوم
کی پوری تاریخ آگئی ہے، اس میں اس خواب کی
طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے، جس کے مطابق رسول اللہ
…نے خواب میں دارالعلوم دیوبند کی بنیادی عمارت نو
درہ کی نشاندہی کی تھی :
خود
ساقیِ کوثر نے رکھی، میخانے کی بنیاد یہاں
تاریخ
مرتب کرتی ہے، دیوانوں کی روداد یہاں
ترانہ کے اشعار میں جو صوتی
آہنگ اور شِکُوہ ِالفاظ مطلوب ہے، وہ اس ترانہ میں بھرپور طریقہ پر پایا
جاتا ہے اور مجاز لکھنوی کے ترانہٴ علی گڑھ سے کسی طرح کم
نہیں، مولانا نے ظفر تخلص اختیار کیا تھا اور آپ کا مجموعہٴ
کلام ”نغمہٴ سحر“کے نام سے شائع ہوچکا ہے، یادش بخیر، جس سال ہم
لوگ دورہٴ حدیث میں تھے، اسی سال غالباً اس پر اتر پردیش
اُردو اکیڈمی سے ایوارڈ بھی ملا تھا، مولانا کا حق ہے کہ
کوئی صاحبِ حوصلہ اپنی پی، ایچ، ڈی کے لیے آپ
کی ادبی خدمات کا موضوع اختیار کرے، وباللہ التوفیق۔
-------------------------
اس حقیر کا کوئی سبق ان کے
پاس نہیں تھا؛ اس لیے براہِ راست ان سے استفادہ کا موقع نہیں
ملا اور کم آمیزی کے مزاج کی وجہ سے زمانہٴ طالب علمی
میں زیادہ آمد و رفت بھی نہیں رہی؛ لیکن بعد
میں جب بھی دیوبند جانا ہوتا، آپ کے یہاں حاضری ہوتی،
المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے قیام کے بعد اس کے
پہلے سالانہ جلسہ میں راقم نے حضرت مولانا محمد نعمت اللہ اعظمی دامت
برکاتہم اور مولانا ریاست علی بجنوری کو دعوت دی تھی، انھوں نے دعوت قبول کی اور تشریف
لائے، اس وقت معہد بالکل ابتدائی حالت میں تھا، راستے نہایت ہی
ناہموار تھے، قرب وجوار میں کوئی آبادی نہیں تھی،
پڑوس میں ایک عصری تعلیمی ادارہ تھا، وہیں سے
بجلی لی جاتی تھی، اتفاق سے اتنی شدید بارش
ہوئی کہ راستہ آمد ورفت کے لائق نہیں رہا، دونوں بزرگوں کا قیام
میرے غریب خانہ پر میری ذاتی لائبریری
کے ہال میں رہا، صرف ایک دفعہ معہد لایا گیا، جس کی
اس وقت صرف ایک منزل تھی، اسی کے ایک ہال میں طلبہ
کا قیام تھا اور ایک ہال کھانے کے لیے تھا اور ایک ہال میں
چھوٹی موٹی لائبریری بھی تھی، لائبریری
کے ہال میں دونوں بزرگوں کے محاضرات ہوئے، اگلے دن شہر میں جلسہٴ
عام ہوا اور ان بزرگوں کے ہاتھوں فارغین میں اسناد تقسیم کی
گئیں، جلسہ میں شہر کے پڑھے لکھے لوگوں اور ذمہ دارانِ مدارس کی
بڑی تعداد موجو دتھی۔
یہ بات ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کے
استقبال اور قیام کا معقول انتظام نہیں ہوسکا؛ لیکن انھوں نے
اپنی خوش اخلاقی اور خورد نوازی سے مجھے اس کا ذرا بھی
احساس نہیں ہونے دیا، مولانا ریاست علی صاحب بار بار اس حقیر اور معہد کے اساتذہ وطلبہ کی حوصلہ افزائی
کرتے رہے، خاص طورپر فرمایا : مجھے یہاں کی دو باتیں بہت
پسند آئیں، ایک : افراد سازی، دوسرے :سلیقہ شعاری،
کہنے لگے : یہاں جو اساتذہ پڑھارہے ہیں، یاجو طلبہ پڑھ رہے ہیں،
وہ بیشتر میرے شاگرد رہ چکے ہیں؛ لیکن یہاں میں
نے ان کے جو تحقیقی مقالات دیکھے، وہ غیر معمولی ہیں
اور ان کے اندر یہ صلاحیت تربیت کے ذریعہ پیدا ہوئی
ہے، سلیقہ شعاری کے بارے میں کہا کہ:میں نے دیکھا
کہ لائبریری کے نظام سے لے کر طلبہ کا پروگرام، جلسہ کا دعوت نامہ اور
شہر میں منعقد ہونے والا سالانہ جلسہ ساری چیزوں کو ایک
خاص سلیقہ سے انجام دیا گیا اور کہیں کوئی بھونڈا
پن نظر نہیں آیا، مولانا نے ”کتاب الرائے“ میں بھی اسی
تاثر کا اظہار فرمایا۔
خدا کرے مولانا نے جس حسنِ ظن کا اظہار کیا،
وہ واقعی ادارہ کے خدام میں موجود ہو؛ لیکن بالکل ابتدائی
دور میں ان کی اس حوصلہ افزائی نے ہمارے حوصلوں کو مہمیز
کیا؛ اس کے بعد سے مولانا کی شفقت بڑھتی گئی، جہاں بھی
ملتے، بڑی محبت سے ملتے، شفقت سے پیش آتے، غائبانہ بھی ذکر خیر
کرتے اور دارالعلوم سے فارغ ہونے والا کوئی طالب علم معہد میں داخلہ
کے لیے مشورہ کرتا تو اس کی تائید کرتے، یہ ان کی
بڑائی اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت تھی، جسے سیکھنے کی ضرورت
ہے!
-------------------------
علم و ادب کا یہ بلبل خوشِ نوا
مورخہ:۲۰/مئی ۲۰۱۷ئکو گلشنِ قاسمی
کو رنجیدہ و افسردہ چھوڑ کر رُخصت ہوگیا؛ لیکن ہزاروں شاگردوں
کے دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہے اور سدا زندہ رہے گا۔
اللّٰھمَّ
اغْفِرْلہ وَارْحَمْہ وَتَقَبَّلْ حَسَنَاتِہ وتَجَاوَزْ عَنْ سَیِّئَاتِہ․
(۸/شوال ۱۴۳۸ھ
مطابق ۳/جولائی ۲۰۱۷ء)
$$$
---------------------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8-9، جلد:101 ،ذی
قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء